نوجوان نسل کی کسمہ پرسی۔
آج کی نسل کو لوگ مختلف القابات سے نوازتے ہیں ایسے القابات کہ جنکو سننے کے بعد قوت سماعت بھی گویا اپنے ہونے پہ ناداں ہو۔ کیا سچ میں یہ نسل آدم ثانی اتنی بری ہے؟ نہیں ہرگز نہیں یہ بیچاری تو قابل رحم ہے۔ وہ بچے جنکو مشینوں جیسے ماں باپ ملے جنکا کام بچوں کی پروڈکشن اور مختلف سطحوں پر انکی چند مادی ضروریات کی تکمیل کرنا ہے۔ ایسے بچے جنہیں دادی نانی کی کہانیوں کی جگہ بھیم پاپاءے دی سیلر مین اور سنڈریلا ملے۔ قدرتی غزائیت کی جگہ جنک فوڈ ملی۔ ماں سے بولنا سیکھنے کی عمر میں سکول ٹیچر سے بے بی بے بی یس ماما سیکھا۔ جنکو دین فرقوں کی کتابوں میں ملا۔ مذہب کے نام پر قدیم جدید مشرقی اور مغربی تہذیب کا ملغوبہ ملا۔ سیرت النبی کا نام سنا لیکن نبی کے عمل بس کتابوں میں مقید ملے جن پر ہر مکتب فکر کا عالم بحث کرتا ملا کہ میری کتاب سہی ہے میری کتاب مستند ہے۔ باقی سب غلط ہیں۔ قرآن میتوں اور کشادگی رزق کے لیے منعقد محافل میں نظر آیا۔ اور تو اور انکو جو خدا ملا وہ بھی بہت ظالم ملا۔جو جہنم دہکائے بیٹھا ہے۔ ایسا لگتا جنت یا تو پہلے بھر لی یا پھر کسی کو کرائے پر دے رکھی اب بس جہنم ہے جسکو اس نسل سے بھرنا ہے۔ اتنا ظالم ہونے کے باوجود بھی خدا اس نسل آدم کو مسجد میں بند ملا ہے جسکے باہر مولوی کا پہرہ ہے۔ کہ کہیں خدا فرار نہ ہو جائے یا کوئی سر پھرا اسکو آزاد نہ کروا دے۔ ایسی نسل جس کے تمام سافٹ وئیر ان حالات نے انسٹال کیے اسکو اور کیسا ہونا چاہیے؟ آج کی نسل سے کہیں زیادہ اہمیت ایک کاروباری کے لیے اسکے کاروبار کی ہے اور کسان کے لیے اسکی فصل کی۔ جو اگر کپاس کاشت کرتا تو اسکو پتہ کونسا بیج بونا کب بونا کھاد اور پانی کب دینے اور بیماری کا حملہ کب ہو سکتا اور اسکے تدارک کے لیے کیا کرنا چاہیے۔ لیکن بدقسمتی سے آج کی نسل کی اہمیت ایک فصل جتنی بھی نہیں ہے۔ ایسے میں ببول کا ہی درخت پروان چڑتا کیونکہ بویا ہی یہ اور پرورش بھی ببول جیسی پھر سایہ یا پھل کی تمنا کیونکر کرنی؟ ان حالات میں بھی اگر کوئی نوجوان شجرممنوعہ سے محفوظ رہتا ہے تو یقین مانیں وہ وقت کا ولی ہے اور اسکو اس مقام پر لانے کے لیے صحیح بیج اچھی کھاد اور بروقت سپرے ملا ہے۔ آج کی نسل تاریخ کی مظلوم ترین نسل ہے اس سے نفرت نہ کریں اس پر رحم کھائیں۔ مصباح چوہدری
Yeh parha hua..gd one
ReplyDelete